Measures suggested avoiding restrictions on rice exports

Click here to View Printed Statements
The Pakistan Economy Watch (PEW) on Sunday asked the rice exporters to use proper packing material in order to avoid US restrictions.
Local exporters having market in around 110 countries should use new jute bags for packing to stay clear from any punishment, it said.
Many exporters utilize used gunny bags bought from different flourmills containing pests that is causing concerns in the US, said Dr. Murtaza Mughal, President of the PEW.

 The jute bags that have already been used for wheat transportation contain bugs; which is not acceptable in the sensitive western markets, he said.
Dr. Murtaza Mughal said that if America imposes any restrictions on the Pakistani rice shipments, the EU would follow the suit hurriedly.
He advised exporters to keep themselves away from using used gunny bags which is imperative for the survival of their businesses. “Proper packing can help enhance exports and fetch better price,” he added.
He said that few leading exporters have been using custom-made 5 kg bags while majority seems unconcerned.
Dr. Murtaza Mughal said that some businessmen can also consider using polypropylene bags for exports.
Side-by-side exports of wheat and rice from port help beetles to find their way in rice cargoes, he said.
Law and order situation and extortion has increased cost of doing business while competition with China, India, Thailand, Vietnam, Japan, Brazil, Indonesia, Cambodia, Uruguay, Egypt, and Argentina call for improved measures, said Dr. Murtaza Mughal.
He said that water shortage, reducing organic matters in the soil, financing problems with SBP, salinity in soil, lack of research and energy crisis are also some issues that can pose a threat to Pakistan’s third largest crop and our position as world’s No. 12 rice exporter, he said.
Exporters should take urgent steps to increase their share in the markets of the Philippines, Nigeria, Iran, Saudi Arabia, Iraq, Malaysia, South Africa, and Indonesia if they want to hike up exports to $4 billion by 2015, he said.

پاکستانی چاول میں کیڑوں کی موجودگی، امریکہ الرٹ
تاجر بین الاقوامی پابندیوں سے بچنے کے لئے پیکنگ پر توجہ دیں
پرانی بوریوں کا استعمال ترک کیا جائے۔حکومت مداخلت کرے

اسلام آباد پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ چاول کے برامدکنندگان اپنے کاروبار کی بقاءکے لئے پرانی بوریوں کا استعمال بند کر دیں۔نئی بوریاں استعمال کرنے سے امریکہ اور یورپ میں پاکستانی چاول پر پابندی عائد ہونے کا امکان کم ہو جائے گا جبکہ کاروبار اور قیمت فروخت میں اضافہ بھی ہو گا۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے یہاں جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا کہ پاکستانی برامدکنندگان ایک سو دس ممالک میں کاروبار کر رہے ہیں تاہم امریکہ کی حساس منڈی کے لئے مناسب انتظامات ضروری ہیں۔ برامدکنندگان کی اکثریت گندم کی نقل و حمل میں استعمال ہونے والی بوریاں سستے داموں خرید کر ان میں چاول برامد کرتے ہیں۔ گندم کی بوریوںمیں موجود مختلف کیڑے چاول میںسرائیت کر جاتے ہیں جس سے امریکہ میں پاکستانی چاول کے بارے میں تحفظات جنم لے رہے ہیںاور پاکستانی چاول کا خصوصی معائنہ کیا جا رہا ہے جو کسی بھی وقت پابندی پر منتج ہو سکتا ہے۔ ڈاکٹر مغل نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ نے کوئی پابندی عائد کر دی تو یورپ اسکی تقلید میں تاخیر سے کام نہیں لے گا جس سے 2015تک چار ارب ڈالر کے چاول برامد کرنے کا منصوبہ دہرا رہ جائے گا۔انھوں نے کہا کہ پاکستان اس وقت دنیا کا بارہوان بڑا برامد کنندہ ہے مگر اگر نجی شعبہ نے کوالٹی کی طرف توجہ نہ دی تو صورتحال بدل سکتی ہے۔انھوں نے کہا کہ حکومت بھی اس معاملہ کی طرف توجہ دے کیونکہ یہ شعبہ بھاری زر مبادلہ کما رہا ہے اور اس سے لاکھوں افراد کا کاروبار وابستہ ہے۔انھوں نے کہا کہ برامد کے لئے بندرگاہ پر بھی چاول اور گندم کو ایک ساتھ رکھنے سے گندم کے کیڑے چاول کی بوریوں میں گھس جاتے ہیں جس کا کوئی انتظام ہونا ضروری ہے۔انھوں نے کہا کہ امن و امان کی صورتحال، بھتوں، پانی کی کمی، زمین کی کم ہوتی ہوئی طاقت اور توانائی کے بحران نے پہلے ہی معیشت کا بیڑا غرق کر رکھا ہے اور اگر ان معاملات کی طرف توجہ نہ دی گئی تو دیگر ممالک بین لالقوامی منڈی میں پاکستان کے حصہ ہڑپ کر جائیں گے۔

In: UncategorizedAuthor: