Govt asked to ensure trade facilitation

Click here to View Printed Statements

PaCCS roll-back to hurt traders, revenue collection
Pakistan stands 110th in int’l LPI ranking, India is 47th, BD 79th
The Pakistan Economy Watch (PEW) on Tuesday asked the government to reduce impact of system on the international trade by simplifying and harmonising the cumbersome procedures.
It will reduce cost of doing business, ensure predictability, benefit governments and taxpayers, guarantee higher revenues, attract investment and improve the international rating of the country, it said.
Exporters and importers are facing issues like unnecessary documentation, lack of transparency and rapid legal redress, excessive clearance time, absence of co-ordination between concerned agencies, and absence of modern customs techniques, said Dr. Murtaza Mughal, President PEW.

 The initiatives taken so far has left much to be desired except for introduction of Pakistan Automated Customs Computerised System (PaCCS) which was a step towards adoption of international best practices. The country has earned huge profits through the system because of speedy, transparency and corruption-free module, he said.
Installation of this software on terminals helped ease international trade without compromising efficient collection of custom revenues, he added.
Dr. Murtaza Mughal said PaCCS not only shifted country’s entire manual trade to an automated solution but also detected of many fraud cases including the multi-billion-dollar Container Scam.
Unfortunately, this revolutionary software was replaced by Web Based One Customs (WeBOC), a semi-automated solution with a history of glitches, crashes and poor performance.
Stakeholders were not taken on board before the decision that left trading community unhappy, customs inspectors more powerful and country more uncompetitive, he said.
WeBOC cannot operate without physical verification and traders must bear extra cost for speedy clearance, hence the software only serves the purpose of few, Dr. Mughal observed.
He said that government should undo such moves which can push country further below in the World Bank’s Logistics Performance Index (LPI).
Pakistan stands 110th in the International LPI ranking while India stands 47th and Bangladesh stands 79th.
He said that improvement in LPI ranking is only possible when attention is paid to Customs, infrastructure, international shipments, logistics competence, and tracking and tracing etc.

حکومت تجارتی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام، تاجروں کو بھاری نقصانات
پیکس کے خاتمہ سے کاروباری اخراجات اور بدعنوانی میں اضافہ، محاصل میں کمی
ایل پی آئی کی عالمی درجہ بندی میں پاکستان کا نمبر110، بھارت 47، بنگلہ دیش 79
پاکستانی تاجر بین الاقوامی منڈی میں مسابقت کی صلاحیت کھوتے جا رہے ہیں

اسلام آباد پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا ہے کہ حکومت کاروباری برادری کو تجارتی سہولیات فراہم کرنے میں ناکام ہو رہی ہے جس سے انھیں بھاری نقصانات کا سامنا ہو رہا ہے اور وہ بین الاقوامی مندی میں مسابقت کی صلاحیت سے محروم ہو رہے ہیں۔انھوں نے کہا کہ عالمی بینک کے لاجسٹک پرفارمنس انڈیکس میںپاکستان کا نمبر110ہے جس میں مزید کمی کا امکان ہے کیونکہ بندرگاہوں پر پاکستان آٹومیٹڈ کسٹمزکمپیوٹرائزڈ سسٹم (پیکس) ختم کر کے اسکی جگہ پرانا نظام نافذ کر دیا گیا ہے جس سے سارے اختیارات دوبارہ کلرکوں کے ہاتھ میں آ گئے ہیں اور انھوں نے تاجروں کا خون نچوڑنا شروع کر دیاہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ اس سے قبل پیکس کے جدید اور خودکار نظام نے بین الاقوامی تجارت میں انسانی عمل دخل ختم کر کے وقت کی بچت، محاصل میں اضافہ اور گھپلوں کا امکان ختم کر دیا تھا جو ایف بی آر کے ارباب اختیار کو منظور نہیں تھا۔اسلئے بند کمرہ میں یکطرفہ طور پر اسے ختم کرنے کا فیصلہ کر کیا گیا جس میں کسی شراکت دار کو اعتماد میں لینے کی زحمت بھی گوارا نہیں کی گئی۔اب ذاتی مفادات کے حصول کو یقینی بنانے کے لئے ون کسٹمز کے نیم خودکار،ناکام و پیچیدہ طریقہ کار کواپنایا گیا ہے جو ملک و قوم کی بدقسمتی ہے۔انھوں نے کہا کہ پیکس کی وجہ سے سارا نظام ہم آہنگ و آسان ہو گیا تھا ، پاکستان میںسرمایہ کاروں کی دلچسپی بڑھ اور پاکستان کی عالمی درجہ بندی کو بہتر ہو رہی تھی جبکہ اب صورتحال بالکل بدل گئی ہے جبکہ کاروباری برادری کوانگنت مسائل کا سامنا ہے جس میں غیر ضروری دستاویزات کی تیاری، شفافیت کی کمی ، فوری قانونی ازالہ کے امکان کا خاتمہ، کلیئرنس کا زیادہ وقت ، متعلقہ اداروں کے درمیان عدم تعاون ، اور کسٹمز میں جدید تکنیک کی عدم موجودگی شامل ہیں۔ڈاکٹر مغل نے کہا کہ 2004 میں پاکستان نے ڈبلیو ٹی او کے دوہا ڈویلپمنٹ ایجنڈا میں تجارت کے قواعد و ضوابط کی شفافیت ،انھیں آسان بنانے اور درآمد، برآمد، اور کسٹم کے طریقہ کار کو جدیدخطوط پر استوار کرنے پر اتفاق کیا تھا مگر حالیہ اقدامات اسکی نفی کر رہے ہیںجس سے پاکستان عالمی بینک کی رسد کی کارکردگی کے انڈیکس LPIمیں مزید نیچے جائے گا۔

In: UncategorizedAuthor: