Budget by the elite for the elite: speakers
Click here to View Printed Statements
Budget to widen gap between Govt and masses
Budget leaves country more vulnerable, to shake stability
Economic injustice emerging as a big threat
Speakers at a post budget seminar said that budget has been designed by the elite for people representing superior social and economic status.
Budget will not only widen gap between the rich and poor but also increase divide between masses and the government, they said at the seminar held at Institute of Policy Studies (IPS).
The speakers including DG IPS Khalid Rehman, economist and policy analyst Mr Masood Dahir, Major Amanullah (Retired), Dr. Murtaza Mughal, President Pakistan Economy Watch and others said at the seminar that budget will leave masses vulnerable.
It will reshape society and well as economy which will be less likely to generate opportunities, they added.
The continued trend toward increasing inequality will result in generation of humble returns for business and shake social stability in the country, they warned.
Government policies are shifting income from poor and middle classes to affluent; rich to get richer and everybody else is left behind, they said adding that economic unfairness is emerging as a big threat.
A time is approaching when 99 per cent that will no longer tolerate the greed and corruption of the one per cent, said Dr. Murtaza Mughal.
There has never been a larger gap between earnings; the country is clearly divided between “haves” and “have-nots”.
Poor economic policymaking is to undermine growth, both directly and indirectly as apart from other issues easy access to credit will remain a thing of the past.
Government should take serious steps to spread economic gains equally before it is too late, the speakers recommended.
It is the responsibility of the government to help poor regain the ground lost during last four years without which recovery or economic expansion will be impossible.
Dr. Murtaza Mughal said that some reasons behind rising inequality include declining state ownership of corporations, rampant greed, non-existent price controls, falling wages, ease in hiring and firing, flawed tax and expenditure structure and dehumanising characteristics of rich.
Rulers have never showed any commitment to economic and social justice as their primary political goal. However, delayed response to the challenges may result in a conflict and even a civil war, he warned.
بجٹ بالادست طبقہ کے لئے شرافیہ کا تحفہ ہے۔سیمینار
حکومت اور عوام کے مابین عدم اعتماد، خلیج بڑھے گی، خانہ جنگی ہو سکتی ہے۔مقررین
معاشی ناانصافی بڑھے گی، باصلاحیت عوام کو بھکاری، ملک کو طفیلی بنایا جا رہا ہے۔ڈاکٹر مرتضیٰ مغل
اسلام آباد پالیسی اور اقتصادی امور کے ماہرین نے کہا ہے کہ بجٹ اشرافیہ کا بالادست طبقہ کے لئے تحفہ ہے جس سے حکومت اور عوام کے مابین عدم اعتماد کی خلیج اور معاشی ناانصافی بڑھے گی۔باصلاحیت عوام کو بھکاری جبکہ ملک کو طفیلی ریاست بنایا جا رہا ہے۔ناکام پالیسیوں اور بدانتظامی کے سبب صورتحال خانہ جنگی تک پہنچ سکتی ہے۔یہ بات خالد الرحمٰن، مسعود ڈاہر، میجر امان اللہ، ڈاکٹر مرتضیٰ مغل اور دیگر نے انسٹیوٹ آف پالیسی سٹیڈیز کے زیر احتمام ایک پوسٹ بجٹ سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔انھوں نے کہا کہ بجٹ کونہ تو ریفارمسٹ کہا جا سکتا ہے نہ پاپولسٹ جس نے حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی دائو پر لگا دی ہے۔بجٹ کے تمام تمام نقلابی اقدامات صرف سستی شہرت حاصل کرنے کی ناکام کوشش ہیں مثلاًبینظیر انکم سپورٹ پروگرام کو پچاس ارب کے بجائے ستر ارب دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے جو سیاسی وفاداریاں خریدنے کی کوشش کے سوا کچھ نہیںاس سے با صلاحیت افراد کو بھکاری بنایا جا رہا ہے جو معیشت پر بوجھ ہونگے۔آئندہ مالی سال میں ریونیو کی وصولیوں کا ہدف 3234ارب روپے ہے جو مشکل نظر آتا ہے اس میں بار بار نظر الثانی ہو گی ۔ برامدات کم اور درامدات بڑھ رہی ہیں جبکہ کسٹم ڈیوٹیوں میں اضافہ کو محاصل میں اضافہ دکھا کر قوم کو بے وقوف بنایا جا رہا ہے حکومت کا زراعت سمیت کسی بھی من پسند شعبہ پر ٹیکس لگانے یا ٹیکس چوروں کے خلاف موثر کاروائی کا کوئی ارادہ نہیں ہے۔بجلی کے بحران کے حل کے لئے بجٹ میں بجلی کے بحران کے حل کے لئے 183ارب روپے رکھے گئے ہیں جو گردشی قرضہ کا چوتھائی بھی نہیں ۔ڈبل ڈیجیٹ افراط زر اور روپے کی ناقدری کے دوران سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 20فیصداضافہ ایک مزاق ہے۔بڑے درجے کی صنعتوں کی گروتھ صرف 1.1فیصد ہے جبکہ بیرونی سرمایہ کاری میں ساٹھ فیصد کمی آئی ہے۔ ہر شعبہ زوال پزیر ہے ملک ایک طفیلی ریاست بن رہا ہے۔زرعی شعبہ کی ترقی کا بھی یہ حال ہے کہ اسی فیصد دالیں درآمد کرنا ہونگی۔ برامدات میں اضافہ نہیں ہو رہا ہے بلکہ عالمی قیمتوں میں بڑھوتری کے سبب اضافہ دکھ رہا ہے۔ ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ تیل کی مد میں حکومت تقریباً ستر ارب روپے ماہانہ کما رہی ہے اور ساتھ ہی سبسڈی کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔ بجلی کے نرخ آئے روز نئے منی بجٹ کی توید دیتے ہیں مگر چار سال میں بجلی پر ایک سو ارب کی سبسڈی کا دعویٰ بھی کیا جاتا ہے۔خسارے میں چلنے والے ادارے آئندہ سال بھی عوام کے خون پر پلتے رہیں گے۔بجٹ میں زراعت، سروس، کنسٹرکشن، کیپٹل مارکیٹ وغیرہ کو ٹیکس نیٹ میں لانے کیلئے کوئی اعلان نہیں کیا گیا ۔ بجٹ خسارہ کم اور آمدنی زیادہ دکھانے کی کوششیں کئی سال سے جاری ہیں جن سے آئی ایم ایف یا عوام کو بے وقوف بنانا ناممکن ہے۔ ڈاکٹر مغل کے مطابق اگلے مالی سال میں بینکوں سے قرضہ لینے کی شرح کم از کم دگنی ہو جائے گیایسی نہیں جسے عوام کی پزیرائی ملے گی۔و بینکوں سے قرضے لینے کی پالیسی کے تسلسل کا پتہ ریتے ہیں۔ قرضوں پر انحصار کرتے رہیں گے جس سے بجٹ خسارہ بڑھتا جائے اور ملک غلام ہوتا جائے گا۔