رائس ملز مالکان نے ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کر دیا
کاشتکاروں سے چاول کی خریداری بند، بینکوں کے اربوں روپے ڈوبنے کا خدشہ
کامونکے میں تین ہزار مالکان کا ہنگامی اجلاس طلب، پارلیمنٹ کے سامنے دھرنا دینگے
ملک بھر کے رائس ملز مالکان نے اپنے مسائل کے حل نہ ہونے پر ملک گیر احتجاجی تحریک کا اعلان کر دیا۔ کاشتکاروں سے چاول کی خریداری بند کر دی گئی ہے جبکہ ملوں کو تالے لگنے سے لاکھوں افراد بے روزگاراوربینکوں کے اربوں روپے ڈوبنے کا خدشہ ہے۔
پندرہ جون کو غلہ منڈی کامونکے میں تین ہزار مالکان کا ہنگامی اجلاس طلب کر لیا گیا ہے جس میں پارلیمنٹ کے سامنے دھرنے سمیت تمام معاملات کو حتمی شکل دی جائیگی۔ یہ بات پاکستان رائس ملز ایسوسی ایشن کے صدر مختار احمد خان بلوچ نے پاکستان اکانومی واچ کے صدر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل سے خصوصی بات چیت کرتے ہوئے کہی۔ انھوں نے کہا کہ سالانہ دو سو ارب سے زیادہ کا زرمبادلہ کمانے والا چاول کا شعبہ شدید بحران کا شکار ہے مگر ارباب اختیار اسے بیل آئوٹ کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہے۔
ٹیکسٹائل کے بعد سب سے زیادہ برامد کرنے والے شعبہ سے لاکھوں افراد کا روزگار وابستہ ہے جسے توجہ نہیں دی جا رہی ہے۔بھارت نے بین الاقوامی منڈی میں اپنا سستا چاول متعارف کروا دیا ہے جو خوشبو سے عاری مگر سائیز میں لمبا اور خفیہ سبسڈی کی وجہ سے قیمت میں سستا ہے۔ اس وجہ سے ایران اور مشرق وسطیٰ سمیت متعدد منڈیوں سے پاکستان کے قدم اکھڑ گئے ہیںجس سے تین ہزار رائس ملز بحران کا شکار ہو گئی ہیں جن میں سے ایک ہزارتباہی کے دہانے پر ہیں ۔ پنجاب کے مختلف اضلاع میں لاکھوں پوری چاول گوداموں میں پڑاضائع ہو رہا ہے جبکہ بینکوں کے قرضے اور سود بڑھتا جا رہا ہے جبکہ دوسری طرف قیمت گر رہی ہے۔ ایکسپورٹر اپنا مارجن کم کرنے کو تیار نہیں جس سے ملز مالکان دیورا سے لگ گئے ہیں۔ اس موقع پر ڈاکٹر مرتضیٰ مغل نے کہا کہ بجٹ میں چاول کے شعبہ کی ترقی کیلئے اقدامات ناکافی ہیں۔حکومت برامدکنندگان کو توجہ دیتی ہے مگر کسان اور ملز مالکان کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ بحران زدہ شعبہ کا مارک اپ معاف کیا جائے، ٹی سی پی چاول خریدے اور رائس ملز کو بیمار صنعت قرار دے کر بحالی کی سنجیدہ کوششیں کی جائیں۔